کوئلے سے بجلی پیدا کریں
14/06/2017 - حکیم محمد عثمان

کوئلے سے بجلی پیدا کریں
توانائی کے بغیر ملک میں صنعتی اوت تہذیبی ترقی دشوار امر ہے۔ملک میں روز بروز بڑھتے
ہوئے ،انرجی بحران پر جلد ازجلد قابو پانے کی خاطر اب حکومت نے چین کے ساتھ ساتھ امریکہ
سے بھی کو ل پاور پلانٹس درآمد کرنے شروع کردیئے ہیں۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ
اس وقت دنیا کی چالیس فیصد بجلی کوئلے سے ہی پیدا کی جاری ہے۔اس لئے ہماری حکومت کی
طرف سے ،بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لئے سولر ،ونڈ،پن یا نیوکلیئر پاورپروجیکٹس کی
بجائے کول پلانٹس کا سہارا لینا ایک یقینی امر ہے۔اس کی دوسری اہم وجہ ہمارے پاس کوئلے
کے 185بلین ٹن کے وسیع ذخائر کا ہونا بھی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ
پاکستان میں موجود کوئلے کے ذخائر سعودی عرب اور دبئی کے تیل کے 350 بلین بیرل کے
ذخائر سے زیادہ انرجی پیدا کرسکتے ہیں۔ پاکستان انرجی بْک2011ء کے مطابق ہماری ٹوٹل
ملکی پیداوار 22477میگاواٹ ہے۔جبکہ ہم کوئلے سے اس پیداوارکاصرف 2.27فیصد حاصل کر
رہے ہیں ۔اس کے برعکس امریکہ ،چین،روس،فرانس۔جرمنی اور بھارت کے علاوہ بہت سے
دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی اپنی ٹوٹل پیداوارکا40سے60فیصد کوئلے سے پیدا کرتے رہے ہیں۔
لیکن اب UN Claimate summit اور G20 کے ممبر ممالک جن میں مندرجہ بالا تقریباََ تمام
ممالک شامل ہیں ، ماحولیاتی مسائل اورکر�ۂارض کے بڑھتے ہوئے ٹمپریچر کو کم کرنے کے
لئے ان ممالک نے کول پاور پلانٹس کی تعداد کم کرنی شروع کردی ہے ۔اس کی واضح مثال اس
بات سے دیکھی جاسکتی ہے کہ چین کے بعد اب امریکہ نے بھی اپنے پاور پلانٹس دیگر ممالک
کوبرآمدکرنے شروع کر دے ہیں۔جوکہ ہماری حکومت بھی تمام تر حالات وواقعات کو جاننے کے
باوجود درآمد کررہی ہے۔
اس بات سے کسی کو ک انکار نہیں کہ پاک چائینہ اکنامک کوریڈور پورے خطے کے لئے گیم
چینجر ہوسکتا ہے ۔لیکن چین سی پیک کے منصوبے کے تحت نہ صرف امپورٹ ایکسپورٹ
ٹیکسزسے بچ جائے گا۔ بلکہ وہ اپنے استعمال شدہ کول پاور پلانٹس پاکستان کو برآمد کر کے اپنے
ملک کو ماحولیاتی مسائل سے بچانے کے ساتھ ساتھ زرِمبادلہ بھی کمارہا ہے۔
2018ء میںیہ پاور پلانٹس بجلی بنانا شروع کر دیں گے ۔جس سے وقتی طور پر ہمارے ملک سے
لوڈشیڈنگ کاخاتمہ تو ہوجائے گااور بجلی قدرے سستی بھی ہو گی ۔لیکن بین الاقوامی ماحولیاتی
تنظیموں کی طرف سے پابندیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ چونکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ان پلانٹس
کا جال انسانی جانوں کے لئے وبالِ جان ثابت ہو گا۔ایک اندازے کے مطابق 2016ء میں صرف
کراچی میں 1000 لوگ ٹمریچر میں اضافے کی وجہ لقۂہ اجل بن گئے تھے۔ واضح رہے کہ کول
پاور پلانٹس سے خارج ہونے والی oxide and sulfer Dioxide Nitrous Di جیسی
گیسیں ایسڈ رینز ،سموگ اور اوزون کی تہہ کو باریک کرنے کے علاوہ ٹمپریچر میں اضافے کا
بھی سبب بنتی ہیں ۔جبکہ ہنوز تھر اور بدین میں کول پاور پلانٹس کے منصوبے مکمل نہیں ہوئے
۔جن کے بعد کراچی میں اموات کی تعداد تقریباًبڑھ جائے گی۔
کیا بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہمارے پاس کول پاور پلانٹس آخری حل ہیں؟تو اس کا
سادہ سا جواب گزشتہ سال سابق چئرمین واپڈا نے اپنے تحقیقاتی کالموں کے ذریعے دیا تھا۔بلکہ
انہوں نے اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کو بریف بھی کیا تھا،جس کا انعام ان کو صر ف
چند روز بعد ہی اپنا عہدہ چھوڑنے کی صورت میں مل گیا تھا۔جس کو اگرچہ ان کے کسی ذاتی
ایشو کے ساتھ جوڑ دیا گیاتھا۔لیکن یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس خوبصورتی کے ساتھ
انہوں نے لوڈشیڈنگ جیسی عفریت پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ کالا باغ ڈیم جیسے اہم مۂلے کے
حل کا جو منصوبہ پیش کیا تھا۔اس پر کام کیوں نہیں کیا گیا؟موجودہ چئرمین واپڈا جسٹس (ر)مزمل
حسین نے اس پر کبھی کوئی بات کیوں نہیں کی؟
۔اگر ہم بھی نیپال کی طرح ملک بھر میں پن بجلی کے چھوٹے بڑے منصوبے شروع کر دیں آج
بھی ہم صرف پن پاور منصوبوں کے ذریعے 50000 میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں ۔اس سے
نہ صرف ہم اپنے ماحولیاتی مسائل پر قابو پا کر انسانی جانوں کو بچالیں گے بلکہ مستقل طور پر
اپنے ملک کو اس بیماری سے نجات دلواسکتے ہیں ۔

متعلقہ تبصرے

  • اس پوسٹ پر کوئی تبصرہ نہیں ہے.

اپنی رائے لکھیں

  • پورا نام
  • آپکا ای میل ایڈریس
  • تبصرہ
  •