چلتے رہیں ،یہی زندگی ہے .....
16/08/2017 - حکیم محمد عثمان

چلتے رہیں ،یہی زندگی ہے .....
میں اب تک ساٹھ سے زائد ملکوں کا سفر کرکے وہاں کی زندگی دیکھ چکا ہوں۔ان کا معیار صحت جانچا ہے
اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ چین ،بھارت، بنگلہ دیش‘ سری لنکا، ایران ، عراق، ملائشیا کے عوام
زندگی کی گہما گہمی کے باوجود سیر کو معمول بناتے ہیں۔ وہ لوگ صحت کو روپے پیسے پر مقدم سمجھتے
ہیں۔ جبکہ پاکستان میں صرف ایک یا دو فیصد لوگ سیر کرتے ہیں جو کہ دنیا کے اہم ترین ممالک کی صف
میں شامل ملکوں میں سب سے کم شرح ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی مصروفیات
کے باعث سیر کی ضرورت نہیں رہتی، یہ ایک فرسودہ خیال ہے۔ سیر چاہے پانچ دس منٹ کیلئے ہی کیوں نہ
کی جائے یہ جسم و ذہن پر خوشگوار اثر ڈالتی ہے۔ سیر کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ تروتازہ ہونے کیلئے فارغ
الذہن ہو کر بغیر کسی کام کے چہل قدمی

انسان ہمیشہ اس گمان میں رہتا ہے کہ وہ جو کھاتا پیتا ہے، وہی جزو بدن بن کر اس میں توانائی پیدا کرتا ہے۔
اگرچہ یہ بات سچ ہے مگر طبی اعتبار سے غذا کو جزو بدن بننے کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے،
انسان شاذو نادر ہی اس جانب غور کرتا ہے۔ معدہ تندرست ہو تو غیر معمولی غذا بھی ہضم ہو جاتی ہے مگر
غیر معمولی غذا کے ہضم ہونے کا معاملہ سدا ایک جیسا نہیں رہتا ۔ غذا کو جزو بدن بنانے کیلئے انسان کا
حرکت کرتے رہنا بہت ضروری ہے۔ انسان کا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا اور سونا جاگنا معمول کی حرکات ہیں۔
لیکن یہی معمول غذا کو جزو بدن بننے میں جہاں مدد دیتا ہے وہاں اسے بدن کیلئے عذاب بھی بنا دیتا ہے۔ اس
سلسلے میں مختلف ادوار کے انسان کی مثال دی جا سکتی ہے۔ مثلاً بیس تیس سال پہلے تک ہمارے ہاں عام
انسان غذا استعمال کرنے کے بعد اسے مکمل طور پر ہضم کرتا تھا، یعنی جب پوری محنت و مشقت کے بعد
بھوک لگنے پر غذا کھاتا تھا تو اس کے بعد بھی اپنی محنت جاری رکھتا تھا جس سے اس کی غذا مکمل طور
پر جزو بدن بنتی تھی جس کی وجہ سے اس کا معدہ بیماریوں سے پاک رہتا تھا۔ نہ اسے تبخیر معدہ کی
شکایت ہوتی نہ خون میں کولیسٹرول بڑھتا ، نہ اسے بلڈ پریشر ہوتا اور نہ ہی شوگر جیسی مہلک امراض
لاحق ہوتیں۔ اگرچہ یہ بیماریاں بیس تیس سال پہلے بھی تھیں مگر ان کی شرح بہت کم تھی۔ لیکن جب آج کے
حالات پر نظر دالتے ہیں تو بے تحاشا امراض دیکھ کر روح فنا ہو جاتی ہے۔ جدید طب اور بڑے بڑے
ڈاکٹروں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ موجودہ دور کا انسان سہل پسند ہو چکا ہے۔ وہ چٹ پٹی مرغن غذائیں
کھانے کا شوقین ہے مگر اسے ہضم نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ بہت کم جسمانی مشقت کرتا ہے۔ نئے دور کا
انسان دماغی کام کر کے بہت تھک جاتا ہے۔ حرکت و نقل کیلئے سواری کا سہارا لیتا ہے چاہے ایک ہی دفتر
کی ایک فلور اوپر والی یا نیچے والی منزل پر کام ہو، وہ جلد بازی یا افراتفری کی وجہ سے لفٹ کے ذریعے
اوپر نیچے جاتا ہے یا پھر خود حرکت کرنے کی زحمت سے بچنے کیلئے چپڑاسیوں کے ذریعے کام کرواتا
ہے۔ اسی طرح دفتر سے باہر کوئی کام ہو تو چند سو گز پیدل چلنے کی بجائے رکشہ، سکوٹر ، ویگن یا کار
پر سفر کرتا ہے۔

موجودہ دور کے انسان کی یہ سہل پسندی ہی دراصل ایسے بہت سے امراض کا سبب ہے جس سے آج ہر
کوئی دوچار ہے۔ البتہ ایسے لوگ جو اپنے دفتری امور انجام دیتے وقت کرسی سے چمٹے نہیں رہتے اور
صرف خود کو جسمانی طور پر فعال بنانے کی غرض سے سارا دن ذہنی اور جسمانی کام کرتے ہیں، ان کی
صحت خاصی بہتر رہتی ہے۔ ایسے لوگ ڈپریشن ، بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک اور شوگر کے علاوہ معدہ کے
متعدد امراض سے خاصی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں جسمانی مشقت کے عادی لوگ نزلہ فلو اور
زکام جیسے عام مرض سے بہت حد تک بچے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں غذا مکمل توانائی پیدا
کرتی ہے اور ان کے جسم میں بیماریوں کے خلاف مدافعت بڑھ جاتی ہے۔

آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ نوجوانی میں کھیل کود کرنے والے اکثر نوجوان صحت مند رہتے ہیں، لیکن
جونہی وہ پیشہ وارانہ زندگی میں قدم رکھتے ہیں یا پھر روزگاری کے باعث یا تو پاؤں ہلانا چھوڑ دیتے ہیں
تو انہیں بیماریاں دیمک کی طرح لگ جاتی ہیں۔ اسی طرح امراء اور بڑے بڑے صنعتکار ، بیوروکریٹس،
سیاستدان ادیب اور ایسے شعبوں سے وابستہ حضرات جو اپنی گو ناگوں مصروفیات کے باعث جسمانی مشق
نہیں کرسکتے وہ ہر طرح کے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کی بیماریاں دوا سے بھی ختم نہیں ہو پاتیں۔ اس
موقع پر ڈاکٹر انہیں ادویات کے ساتھ سیر کی نصیحت کرتے ہیں۔ آپ نے شہروں کے بڑے بڑے پارکوں یا
پوش علاقوں میں صبح اور شام کے وقت ایسے ہی لوگوں کو دیکھا ہو گا جو ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق
اپنی صحت کی خاطر سیر کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں جو سیر کے نام سے چڑتے تھے اور اپنی
مصروفیات کے باعث صحت کے ازلی راز ’’سیر‘‘ کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، مگر بیماریوں کی شدت سے
مجبور ہو کر بالآخر سیر کرنے پر مجبور ہو گئے۔

جدید طب نے سیر کو صحت کیلئے انتہائی ضروری قرار دیا ہے اور اس بارے میں واضح کیا ہے کہ سیر
کے ذریعے آج کے دور کے تمام نفسیاتی اور جسمانی امراض کے خلاف مدافعت پیدا کی جا سکتی ہے۔
زندگی کی گہما گہمی کے باعث بہت سے ایسے لوگ جو دفتروں سے گھروں میں آنے کے باعث کوئی کھیل
نہیں کھیل سکتے وہ رات کے وقت اکیلئے یا دوستوں کے ساتھ یا پھر اپنے بیوی بچوں یا پھر والدین کے ساتھ
سیر کرنے کو معمول بنا لیں تو ان کی راتیں پر سکون ہو جائیں گی اور صبحیں اجلی اجلی سی نظر آئیں گی
مجھے متعدد طبی کانفرنسوں میں شرکت کیلئے یورپی اور ایشیائی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے
ان تمام ملکوں کے عوام میں اپنی صحت کی حفاظت کا رجحان پایا ہے۔ یورپ کے تمام ملک جہاں کی پیشہ
وارانہ زندگی نے ایک انسان کو دوسرے سے دور کر دیا ہے، سائنس کی ترقی نے انسانوں کو سہل پسند بنا
دیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یورپ انتہائی چابکدست اور فعال لوگوں کی سر زمین ہے۔ جاپان، چین، کوریا،
تھائی لینڈ اور ہانگ کانگ کے عوام بھی ایسی ہی خصوصیات کے حامل ہیں۔ وہ لوگ اپنی پیشہ وارانہ
مصروفیات کے باوجود سیر کرتے ہیں۔ انگلینڈ میں صبح سویرے اور رات کے وقت سیر کرنے کا رواج ہے
وہاں تقریباً 99 فیصد لوگ روزانہ سیر کرتے ہیں۔ جاپان، چین اور تھائی لینڈ میں تو یہ شرح سو فیصد ہے۔
امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں بھی کھیل اور سیر ہر شخص کے معمول کا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں سیر کو
خاطر میں نہ لانے والے لوگ یورپی ممالک کے فعال عوام کے ان معمولات کو ان کی خوشحالی کا باعث
سمجھتے ہیں۔ لیکن شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ وہ لوگ نشہ آور اشیاء کے استعمال کے باوجود سیر کو زندگی
کا لازمی حصہ تصور کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی صحت خوشحالی کی وجہ سے نہیں بلکہ کھیلوں اور سیر کے
رجحان کے باعث ہے۔

متعلقہ تبصرے

  • اس پوسٹ پر کوئی تبصرہ نہیں ہے.

اپنی رائے لکھیں

  • پورا نام
  • آپکا ای میل ایڈریس
  • تبصرہ
  •