گلف فوڈز 2017 اور ہماری ضروریات
12/04/2017 - حکیم محمد عثمان
پاکستان میں لاہور ایکسپو کی تعمیر کے بعد اس بات کا یقین دلایا گیا تھا کہ ملک میں مقامی فوڈز
انڈسٹری کو پروان چڑھانے کے لئے انٹرنیشنل نمائشوں کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جائے گا لیکن اب
تک صورتحال یہ ہے کہ یہاں پراپرٹی،فرنیچر،کتابوں ،پولٹری ،آٹو اور میڈیسن وغیرہ کی نمائشوں
کا اہتمام ہی کیا جارہا ہے ۔یہی امید اب پشاور میں تعمیر کئے جانے والے ایکسپو سے بھی لگائی
جارہی ہیں ۔جس کے لئے دو ارب روپے مختص کئے جاچکے ہیں۔ہمارے جیسے لوگوں کو اس بات
کی افادیت کا اندازہ ہے کہ جس نمائش میں عالمی صنعتی کاروباری اداروں کومدعو کیا جائے
گاوہاں پیداواری اور مارکیٹنگ سکوپ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ میں اکثر ملک سے باہر فوڈزکی عالمی
نمائشوں میں شرکت کرتا ہوں اور اپنی پراڈکٹس کے سٹال لگواتا ہوں ،وہاں یہ احساس شدت سے
بڑھتا ہے کہ کاش ہمارے ملک میں بھی اس قدر منظم اور وسیع المقاصد نمائشوں کا اہتما م باقاعدگی
سے کیا جائے۔پچھلے ماہ میرا دبئی میں گلف فوڈز 2017 میں شریک ہونے کا موقع ملا۔اس پانچ
روزہ فوڈز نمائش میں ایک سو بیس ملکوں کے پانچ ہزار سے زائد فوڈزمینوفیکچرز شامل ہوتے ہیں
۔ 1987 سے جاری دوبئی ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں یہ نمائش اب دنیا کے ایک بڑے ایونٹ کے طور پر
شمار ہوتی ہے۔ اس بار حیران کن حد تک ٹی ڈیپ نے بہترین انتظاما ت کرکے پاکستانی صنعت
کاروں اور مندوبین کا دل جیت لیا۔ پچپن پاکستانی کمپنیوں نے گلف فوڈز ایگزیبیشن میں شرکت کی
تھی جس سے دنیا بھر سے آئے کاروباری اداروں کو پاکستان کی Rice, Juices, Pickles
assorted, Canned fish, Edible oil, Fresh fruits & vegetables, Chilled
Mutton & Beef, Frozen Meat Products, Syrups assorted, Confectionery
items, Bakery items, Tea, Dried seeds, Herbal & Health products, Milk
products, Honey and Dry fruits etc.
جیسی معیاری مصنوعات سے متعارف کرایا گیا۔ دوبئی نے گلف فوڈزجیسی شاندار نمائشوں کی
بدولت دنیا بھر میں کاروباری رابطے بڑھانے کردار ادا کرتے ہوئے اپنی اہمیت بڑھا لی ہے۔کچھ
ایسی ہی پالیسی پاکستان کو بھی بنانی ہوگی کیونکہ اب سی پیک کے بعد پاکستان کے کاروباری اور
اقتصادی راستے کھل رہے ہیں جس سے یہاں مقامی صنعت کا سکوپ یقینی طور پربڑھنے کی امید
کرنی چاہئے اور اسکی توقعات بھی کی جارہی ہیں ۔تاہم خدشہ ہے اور جیسا کہ افواہیں بھی گردش
کررہی ہیں کہ اگر حکومت پاکستان نے مقامی صنعتوں اور ہر طرح کی مصنوعات کو تحفظ نہ دیا
اور کاروبار کے عالمی پیمانوں کے مطابق اقدامات نہ اٹھائے تو غیر ملکی مصنوعات کا اثر زیادہ
بڑھ جانے سے مقامی مصنوعات متاثر ہونے کا امکان ہے۔عالمی نمائشوں میں چونکہ ہول سیلر اور
ڈسٹری بیوٹرز کو ایک پلیٹ فارم پر تبادلہ خیال کا موقع ملتا ہے لہذا بزنس پرموٹ کرنے کا یہ
بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے جس کا پاکستان میں زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔پاکستان کی
فوڈز آئٹمز عالمی معیارات کی حامل ہیں ۔یقینی طور پر جب ہماری مصنوعات کو عالمی توجہ
حاصل ہوگی تو ملک کے زرمبادلہ میں تیزی آئے گی۔